عرفان القرآن میں احترام رسالت کا التزام (شیخ الحدیث علامہ محمد معراج الاسلام)

قرآن حکیم واقعتا ایک نسخہ کیمیا، دائمی آئین فطرت اور غیر متبدل دستور حیات ہے جو حقیقتاً وجود ملی اور قومی تشخص کی بقاء کا ضامن ہے۔ یہ کوئی سخن گسترانہ بات نہیں، جسے زیب داستان کیلئے مطلع میں سجادیا گیا ہو بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور تسلیم شدہ صداقت ہے جس کے شواہد تاریخ کے اوراق پارینہ پر جابجا موجود ہیں اور بآسانی تلاش کئے جاسکتے ہیں۔

اسلامی تاریخ بتاتی ہے جب مسلمان قوم نے قرآن پاک کی حبلِ متین کو مضبوطی سے تھاما اور بصورت اجتماعی اسے اپنی زندگی میں نافذ کیا تو وہ سپہرِ حیات پر مہرو ماہ بن کر چمکی اور اپنے حسن عمل کی تابانیوں سے تاریکیوں کو نوچ ڈالا اور گھمبیر ظلمتوں کا دامن تار تار اور گریبان چاک کردیا بلکہ صفحہ ہستی سے ان کا وجود مٹا ڈالا۔ جاء الحق وز ھق الباطل۔ ۔ ۔ مگر اس کے برعکس ایک المناک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ جب مسلمانوں نے من حیث القوم قرآنی ضوابط کو نظر انداز کیا اور دنیاوی دھندوں اور بکھیڑوں میں اس حد تک الجھ گئے کہ سماوی تعلیمات اور احکام ہی کو بھلادیا اور دلوں کے صنم کدے میں فانی لذتوں اور نفسانی خواہشوں کے بت سجالئے اور باجماعت ہوکر دنیائے دوں کی تعمیر میں لگ گئے تو وہ اوج ثریا سے فرش زمین پر بری طرح پٹخ دیئے گئے۔ وہ اپنا سارا عزو وقار کھو بیٹھے اور ذلت کی پستیوں میں حشرات کی طرح رینگنے لگے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی عظمت و کرامت کا راز صرف قرآن پر عمل میں مضمر ہے۔ یہی اس کا اثاثہ حیات اور توشۂ آخرت ہے۔ اگر وہ قرآن کا ہے تو کائنات اس کی ہے اگر وہ قرآن کا نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

گر تو مے خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن

اس لئے ہر دور میں قرآنی مفاہیم و مطالب کا ادراک، مسلمان کی اولین ضرورت رہا ہے تاکہ منشائے خداوندی کو پاسکے اور پھر اسی سانچے میں زندگی کو ڈھال سکے۔ خدا کروڑہا رحمتیں فرمائے ان مستقبل اندیش اور حقیقت شناس ربانی علماء پر جنہوں نے امت نبی کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہر دور میں قرآنی تعلیمات و مفاہیم کو عام کرنے کی کوشش کی اور تفاسیر و تراجم کے ذریعے انہیں خواص و عوام تک پہنچایا۔

جب وقت گزرتا ہے اور زمانہ بدلتا ہے تو اصحاب بصیرت اور اہل نظر کو فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ وہ امت کے لئے ضرورت کے مطابق اور زبان کے نشیب و فراز اور وقت کے بدلتے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ایسی تفسیر یا ترجمہ پیش کریں جو اس زمانہ کے ذوق و وجدان اور طلب و ضرورت کے مطابق ہو اور ان کے لئے اپنے زر تار دامن میں جذب و کشش رکھتا ہو۔ چنانچہ موجودہ دور میں بھی اہل علم نے اپنے دور کیلئے کچھ تراجم پیش کئے ہیں اور مختصر یا طویل تفاسیر لکھی ہیں۔ جن میں ان کا نقطہ نظر جھلکتا ہے اور تراجم یا ترجمانی میں کسی جانب ان کے فکری جھکائو کا پتہ چلتا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ ایسے مترجمین و مفسرین بھی اس صف میں شامل ہوگئے ہیں جن کا علم و ہنر اس بات کا اہل نہیں تھا کہ وہ اس میدان میں جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے۔

قرآن پاک ایسی کتاب نہیں جسے بازیچہ اطفال بنالیا جائے اس کے لئے ادب و لغت میں مہارت، قوانین بلاغت میں مجتہدانہ بصیرت، ناسخ ومنسوخ، توجیہ و تطبیق، تفسیری قوانین و ضوابط سے آگاہی اور فقہ و تدبر کے علاوہ عربی زبان سے خاص لگائو اور اس کا مزاج شناس ہونے کی بھی ضرورت ہے مگر جدت پسند اور بزعم خویش روشن خیال حضرات نے اپنی قابلیت کے غرور اور گھمنڈ میں ان اوصاف خاصہ کی ضرورت محسوس نہیں کی اور انشاء پردازی کے زور پر ایسے تراجم پیش کردیئے جنہیں اردو ادب کے حوالے سے انشاء پردازی کا بہترین نمونہ تو کہا جاسکتا ہے مگر قرآنی مطالب کا حامل و علم بردار نہیں۔ یہ سعادت اسی مرد حق آگاہ کا استحقاق شرعی ہے جسے قرآن پاک کے ساتھ روحانی و جذباتی وابستگی حاصل ہو۔ وہ عربی علوم و فنون کا تیور شناس، ادب ولغت اور معانی و بلاغت کا ماہر اور اصول استنباط سے آگاہ ہو۔ فقہی مسائل پر عبور رکھتا ہو۔ ارض القرآن کی جغرافیائی حدود سے باخبر ہو۔ افلاک و آفاق کے بارے میں اس کی معلومات وسیع اور جدید ترین ہوں اور ان خوبیوں کے ساتھ وہ تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ معیار پر بھی پورا اترتا ہو۔

اسی لئے امت کے بہی خواہ اہل علم نے ہر دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق قرآن پاک کی تفسیر لکھی ہے یا ترجمہ کیا ہے اور امت کی طلب و ضرورت کے مطابق ان کی رہنمائی کی ہے اور انہیں علمی رہنمائی کے میدان میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا کہ جو چاہے انہیں اپنی طرف گھسیٹتا پھرے اور من مانی تاویل کے ذریعے ان کی گمراہی کا سامان کرتا رہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے دور ہمایوں میں اس ضرورت کو پورا کیا اور حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی کے اصرار پر ایک ایسا ترجمہ قلم بند کروایا جسے وہبی اور الہامی عطا کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں فصاحت و بلاغت کے ضوابط، ادبی لطافت، نحوی تراکیب، شرعی آداب، مسلمہ اسلامی اعتقادات، مرتبہ الوہیت اور مقام رسالت کے تقاضوں کو اس درجہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے سے ذہن میں کوئی الجھائو یا منفی تصور پیدا ہی نہیں ہوتا اور اگر پہلے سے شکوک و شبہات کی گرد موجود ہو تو وہ بھی ترجمہ کے اسلوب اور اس میں چنے گنے الفاظ سے دھل جاتی ہے۔

آج کی جدید دنیاکو بھی ایک ایسے ہی ترجمے کی ضرورت تھی جو ان کے ذوق کے مطابق، عام فہم، رواں دواں اور اسلوب قرآن سے ہم آہنگ ہو اور قاری محسوس کرے کہ اس نے بات کی تہہ کو پالیا ہے چنانچہ جہاں اور بہت سی سعادتیں اور نعمتیں حضرت شیخ الاسلام قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زید مجدہ کے حصے میں آئی ہیں وہاں یہ سعادت اور توفیق بھی ان ہی کو ارزانی ہوئی کہ وہ ایک معنی خیز اور دور حاضر کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ایک سلیس و رواں ترجمہ امت کو عطا فرمائیں اوران کی اس دینی وعلمی ضرورت کو پورا کریں۔

چنانچہ انہوں نے گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس طرف توجہ دی اور اپنے فکر و فلسفہ اور عمیق مطالعہ کے نتائج کو ترجمہ میں سمو دیا۔ انہوں نے ترجمہ کی انفرادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ لغوی نحوی، ادبی، علمی، اعتقادی، فکری، سائنسی، تفسیری اور جملہ پہلوئوں پر مشتمل جامع عام فہم اور نادر ترجمہ ہے۔ دوران مطالعہ، علم دوست قاری بہت جلد محسوس کرلیتا ہے کہ ترجمہ میں سلاست و روانی پائی جاتی ہے اور اس میں فصاحت و بلاغت حسن بیان اور ادبی چاشنی کے علاوہ وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو ایک سلیس و عام فہم ترجمہ میں ہونا ضروری ہیں۔

حضرت شیخ الاسلام ’’جدید دور کے تیور شناس‘‘ اور اس کی راہنمائی کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور فکر کے مالک ہی نہیں بلکہ اس فکر کو موقعہ و محل اور مقتضی حال کے مطابق مناسب الفاظ و تراکیب کا حسین جامہ پہنانے اور نفیس ترین اسلوب میں بیان کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے دورِ جدید کے ذہن کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس جانفشانی، مہارت اور تدبر سے ترجمہ کا فریضہ انجام دیا ہے، وہ بہت سی الجھنوں کا شافی علاج اور شکوک و شبہات کا گرہ کشا ہے اور علمی سطح پر جدید دور کے جدید انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔

یہ اس صدی کا ایسا کام ہے جو اپنے علمی دقائق اور مرموز حقائق کے حوالے سے حیرت انگیز حد تک لاجواب و بے مثال اور علمی احتیاط و دیانت اور تبحر و تدبر کی ایک نادر مثال ہے۔ اس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک شخص جتنا زیادہ علم دوست ہو اور اس کا دامن علوم و فنون، دانش و بینش اور علم و ادب سے معمور ہو، وہ اتناہی زیادہ اس سے استفادہ کرتاہے اور اس میں پوشیدہ نکات اور باریکیوں سے محظوظ و مستفید ہوتاہے۔

اس ترجمہ کی ایک خاص بات اور انفرادیت یہ ہے کہ اس میں مقام الوہیت اور ادب رسالت کا بطور خاص خیال رکھا گیا اور ترجمہ میں یہ احتیاط برتی گئی ہے کہ قلم سے کوئی ایسے جملہ یا فقرہ نہ نکلنے پائے جو بے ادبی کے زمرے میں آتا ہو اور مقام رسالت و الوہیت کے منافی ہو۔

آج کے معاشرہ میں آزادیٔ افکار نے ابلیس کے اشارے پر یہ ستم بھی ایجاد کردیا ہے کہ تراجم میں ادب و احترام کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور بے دھڑکے ایسے الفاظ لکھ دیئے جاتے ہیں جو ادب و احترام کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور اسلامی عقائد ونظریات سے متصادم ہوتے ہیں اور ایسے شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں جن کا کوئی جواب ہی نہیں ہوتا، جہالت یا خود فریبی یا تن آسانی نے یہ مرض عام کردیا ہے اور اس سے ایک ایسے علم کلام نے جنم لیا ہے، جس نے ذہنوں کو پراگندہ اور عقائد کو گندہ کردیا ہے۔

حضرت مترجم عرفان القرآن نے اس ناگہانی آفت کی طرف بطور خاص توجہ دی ہے اور ترجمہ کرتے وقت الفاظ و تراکیب کے انتخاب میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ دینی عقائد کے منافی کوئی شبہ پیدا ہی نہیں ہوتا اور پہلے سے جو شکوک وشبہات پیدا ہوچکے ہیں ان کا ازالہ ہوجاتا ہے۔

مقام الوہیت و رسالت کے ادب و احترام کے حوالے سے ہم عرفان القرآن سے چند آیات کا ترجمہ پیش کرتے ہیں جس سے ہر باذوق اور قرآن پاک کا طالب علم قاری ایمانی حلاوت محسوس کرے گا اور اسے عرفان القرآن کی علمی قدر وقیمت اور انفرادیت کا اندازہ ہوگا۔

٭پہلا پارہ آیت نمبر129 میں حضرت مترجم کے نیاز مند قلم کی نیاز مندی اور وارفتگی دیکھیں۔

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠۝۱۲۹

(البقرہ: 129)

’’اے ہمارے رب ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول(ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنادے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کردے، بے شک توہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔

٭سورہ الصف آیت نمبر6 میں اسی مضمون کو دوسرے پیرائے میں پڑھیں۔

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۶

(الصف: 6)

اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس رسولِ (معظم ﷺ) کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لارہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ) ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں ﷺ) واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے‘‘۔

٭ اسی مضمون کا ایک حسنِ روپ سورہ الجمعہ آیت نمبر2 اور نمبر3 میں بھی دیکھیں۔

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝۲
وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۳

(الجمعہ: 2، 3)

’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول (ﷺ) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہرو باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اس رسول ﷺ کو تزکیہ و تعلیم کے لئے بھیجا ہے) جو ابھی ان لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی ان کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے) اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔

٭ سورہ والضحٰی میں محبوب مکرم کے حسن وجمال اور شان کمال کے ذکر نے ’’ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر مترجم‘‘ کو کتنا بے خود بنادیا ہے وہ محبت بھرے ترجمے ہی سے آشکار ہے۔ آیت نمبر1، 2، 3 کا ترجمہ پڑھیں۔

وَ الضُّحٰیۙ۝۱

’’قسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ یا

(اے حبیب مکرم) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرہ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کردیا)۔ یا

قسم ہے وقت چاشت (کی طرح آپ کے آفتابِ رسالت کے بلند ہونے) کی (جس کے نور نے گمراہی کے اندھیروں کو اجالے سے بدل دیا)۔

وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰیۙ۝۲

’’اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ یا

(اے حبیب مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلف عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے۔ یا

قسم ہے رات کی (طرح آپ کے حجابِ ذات کی) جب کہ وہ (آپ کے نورِ حقیقت کو کئی پردوں میں) چھپائے ہوئے ہے۔

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰیؕ۝۳

(الضحٰی: 1، 2، 3)

’’آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے‘‘۔

٭ سورہ النجم میں معراج کے ذکر نے تو مترجم پر ملکوتی کیف طاری کردیا ہے آیت نمبر1 سے آیت نمبر17 تک من میں ڈوب کر ترجمہ پڑھیں خود آپ بھی ملکوتی ماحول میں پہنچ جائیں گے۔

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوٰی۔

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ) کی جب وہ (چشم زدن میں شب معراج اوپر جاکر) نیچے اترے‘‘۔

مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی۔

’’تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیض صحبت سے صحابی بنانے والے رسول ﷺ  ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘۔

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی۔

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے‘‘۔

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔

’’ان کا ارشاد سراسر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔

عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی۔

’’ان کو بڑی قوتوں والے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا ‘‘۔

ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی۔

’’جو حسنِ مطلق ہے، پھر اس (جلوۂِ حسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا‘‘۔

وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی۔

’’اور وہ (محمد ﷺ  شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالمِ خلق کی انتہاء پر تھے)‘‘۔

ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی۔

’’پھر وہ (رب العزت اپنے حبیب محمد ﷺ  سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا‘‘۔

(یہ معنی امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الجامع الصحیح میں روایت کیا ہے، مزید حضرت عبداللہ بن عباس، امام حسن بصری، امام جعفر الصادق، محمد بن کعب القرظی التابعی، ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر کئی ائمہ تفسیر کا قول بھی یہی ہے)۔

فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ اَدْنٰی۔

’’پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرم ﷺ  میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘۔

فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِهٖ مَا أَوْحٰی۔

’’پس (اس خاص مقام قرب و وصال پر) اس (اللہ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔

مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی۔

’’(اُن کے) دل نے اس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔

اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰی مَایَرٰی۔

’’کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا‘‘۔

وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَةً اُخْرٰی۔

’’اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂِ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)‘‘۔

(یہ معنی ابن عباس، ابوذر غفاری، عکرمہ التابعی، حسن البصری التابعی، محمد بن کعب القرظی التابعی، ابوالعالیہ الریاحی التابعی، عطا بن ابی رباح التابعی، کعب الاحبار التابعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر ائمہ کے اقوال پر ہے)۔

عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی۔

’’سدرۃ المنتہٰی کے قریب‘‘۔

عِنْدَ هَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی۔

’’اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے‘‘۔

اِذْیَغْشَی السِّدْرَةَ مَایَغْشٰی۔

’’جب نورِ حق کی تجلیات سدرۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اِس پر) سایہ فگن تھیں‘‘۔

(یہ معنی بھی امام حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ودیگر آئمہ کے اقوال پر ہے)۔

مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔

’’اور ان کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔

٭ سورہ الفتح آیت نمبر 1 اور نمبر 2 میں حضرت مترجم نے عشاق اہل علم کے مسلک کو ترجیح دی ہے اور اس پر خصوصی نوٹ لکھا ہے۔

اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ۝۱

’’(اے حبیبِ مکرم!) بے شک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)‘‘۔

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ۝۲

’’تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے اُن تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرمادے ز (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرمادے اور آپ (کے واسطہ سے آپ کی امت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے‘‘۔

ز یہاں حذفِ مضاف واقع ہوا ہے مراد ’’ماتقدم من ذنب امتک وماتاخر‘‘ ہے کیونکہ آگے امت ہی کے لئے نزول سکینہ، دخولِ جنت اور بخششِ سیئات کی بشارت کا ذکر کیا گیا ہے یہ مضمون، آیت1 سے 5 تک ملاکر پڑھیں تو معنی خود بخود واضح ہوجائے گا اور مزید تفصیل تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ جیسا کہ سورۃ المومن کی آیت نمبر55 کے تحت مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ ’’لذنبک‘‘ میں ’’امت‘‘ مضاف ہے جو کہ محذوف ہے لہذا اس بناء پر یہاں واستغفرلذنبک سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امام نسفی، امام قرطبی اور علامہ شوکانی نے یہی معنی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ کریں۔

1۔ (واستغفرلذنبک) ای لذنب امتک یعنی اپنی امت کے گناہ۔ (نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التاویل، 4: 359)

2۔ (واستغفرلذنبک) قیل: لذنبک امتک حذف المضاف وأقیم المضاف الیہ مقامہ ’’واستغفرلذنبک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ یہاں مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کردیا گیا‘‘۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 15: 324)

3۔ وقیل: لذنبک امتک فی حقک ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ لذنبک یعنی آپ اپنے حق میں امت سے سرزد ہونے والی خطائوں کی‘‘۔ (ابن حیان اندلسی، البحرالمحیط، 7: 471)

4۔ (واستغفرلذنبک) قیل المراد ذنب امتک فھو علی حذف المضاف ’’کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ یں اور یہ معنی مضاف کے محذوف ہونے کی بناء پر ہے‘‘۔ (علامہ شوکانی، فتح القدیر، 4: 497)

٭ سورہ المومن کی آیت نمبر 55 میں بھی اسی ترجیح کو دہرایا ہے۔

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ۝۵۵

’’پس آپ صبر کیجئے، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے اور اپنی امت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کیجئے‘‘۔

بطور نمونہ چند آیات کے یہ تراجم پیش کئے گئے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

ترجمہ و حواشی کا ہر جملہ منفرد اور علمی تحقیقات سے مملو ہے۔ ہر لفظ بول رہا ہے اور ہر فقرہ فردوس بداماں ہے اور

دامن دل می کشدکہ جا اینجا است

تبصرہ